Wednesday 30 March 2016
Wednesday 23 March 2016
khwabon sa koi khwab bananay main lagi hon
خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں
اِک دشت میں ہوں پیاس بُجھانے میں لگی ہوں
بتلاؤ کوئی اسم مجھے رَدِبلا کا
میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں
وہ صحن میں افلاک لئے کب سے کھڑا ہے
میں چھت پہ ہوں بادل کو اُڑانے میں لگی ہوں
اِک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے
اِک عمر سے وہ نام مٹانے میں لگی ہوں
رُکنے نا کبھی پائے سفر روشنیوں کا
دریا میں چراغوں کو بہانے میں لگی ہوں
جب سے تیرے آنے کا سُنا ہے میرے گھر میں
چیزوں کو میں رکھنے میں،اُٹھانے میں لگی ہوں
جلتا بھی ہے بُجھتا بھی ہے ،اُڑتا بھی ہے جُگنو
سورج کو یہ احساس دلانے میں لگی ہوں
بُجھنے کو ہے اب خالی دیا عمرِ رواں کا
میں ہوں کہ ہواؤں کو منانے میں لگی ہوں
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
chaltay rehtay hain magar phir bhi kaheen jatay nahi
jab bhi ata hai muharram ka maheena logo
us k hone ki khabar sheher main dil ne payi
اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی
کوئی ساعت کی بھی فرصت نہیں ملنے پائی
ہاتھ پہ رکھوں ترے نقش ابھر آتے ہیں
کیا صفت دیکھ تو اس شہر کی گِل نے پائی
عشق نے مجھ کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کر
میں ردا درد کی سوزن سے نہ سلنے پائی
ہم کو تنہائی نے توڑا، کیا ریزہ ریزہ
زخمِ دل ہجر کی بارش تو نہ چھلنے پائی
تو فقط آئینہ دیوار پہ آویزاں ہے
تجھ میں رنگت مرے چہرے کی نہ کھلنے پائی
اپنی آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں یہ دنیا والے
کیا فضیلت مرے رخصار کے تِل نے پائی
زلزلے آئے گرے لاکھ شہابِ ثاقب
پر زمیں مرکز و محور سے نہ ہلنے پائی
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
darya ki musafat ne zameen ka nahi chora
دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا
یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا
صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی
اک سجدہ ء سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا
تصویر لگی رہ گئی دیوار ِ کھنڈر پر
جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا
سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے
پر ہم کو بت ِ دل نے یقیں کا نہیں چھوڑا
عُشّاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر
وہ حسن ِ طلب تھا کہ نہیں کا نہیں چھوڑا
محکوم و تہی دست جو حق مانگنے نکلے
پھر تخت بھی اس تخت نشیں کا نہیں چھوڑا
جب ہاتھوں سے رخصت ہوئیں محبوب دعائیں
قطرے کو بھی محراب ِ جبیں کا نہیں چھوڑا
ڈاکٹر شاہدہ ؔدلاور شاہ
Subscribe to:
Posts (Atom)