Wednesday 23 March 2016

darya ki musafat

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا
یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھووڑا
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ

us k hone ki khabar

اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی
کوئی ساعت کی بھی فرصت نہیں ملنے پائی
تو فقط آئینہ دیوار پہ آویزاں ہے
تجھ میں رنگت مرے چہرے کی نہ کھلنے پائی
زلزلے آئے گرے لاکھ شہابِ ثاقب
پر زمیں مرکز و محور سے نہ ہلنے پائی
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


khwabon sa koi khwab bananay main lagi hon

خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں
اِک دشت میں ہوں پیاس بُجھانے میں لگی ہوں

بتلاؤ کوئی اسم مجھے رَدِبلا کا
میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں

وہ صحن میں افلاک لئے کب سے کھڑا ہے
میں چھت پہ ہوں بادل کو اُڑانے میں لگی ہوں

اِک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے
اِک عمر سے وہ نام مٹانے میں لگی ہوں

رُکنے نا کبھی پائے سفر روشنیوں کا
دریا میں چراغوں کو بہانے میں لگی ہوں

جب سے تیرے آنے کا سُنا ہے میرے گھر میں
چیزوں کو میں رکھنے میں،اُٹھانے میں لگی ہوں

جلتا بھی ہے بُجھتا بھی ہے ،اُڑتا بھی ہے جُگنو
سورج کو یہ احساس دلانے میں لگی ہوں

بُجھنے کو ہے اب خالی دیا عمرِ رواں کا
میں ہوں کہ ہواؤں کو منانے میں لگی ہوں

ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


chaltay rehtay hain magar phir bhi kaheen jatay nahi

چلتے رہتے ہیں مگر پھر بھی کہیں جاتے نہیں
ہم نے جانا ہو جہاں رستے وہیں جاتے نہیں
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


aansu ka qatra phel kar ik jheel hogya


jab bhi ata hai muharram ka maheena logo

جب بھی آتا ہے محرم کا مہینہ لوگو
بین کرتی ہوئی دِکھتی ہے سکینہؑ لوگو
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ



Salam az bargah e Imam e Ali Muqam A.S


jo kuwen se nikal nahi paya

جو کنویں سے نکل نہیں پایا
اس کا منظر بدل نہیں پایا
درد آنکھوں میں بھر گیا سارا
جب یہ لفظوں میں ڈھل نہیں پایا
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


main ne bakhiya gari ka fun seekha

میں نے بخیہ گری کا فن سیکھا
چاک دامانِ گل سِلے سارے
جس گلی سے اُسے گُزرنا تھا
رکھ دیے بام پر گِلے سارے
شاہدہ دلاور شاہ


us k hone ki khabar sheher main dil ne payi

اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی
کوئی ساعت کی بھی فرصت نہیں ملنے پائی

ہاتھ پہ رکھوں ترے نقش ابھر آتے ہیں
کیا صفت دیکھ تو اس شہر کی گِل نے پائی

عشق نے مجھ کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کر
میں ردا درد کی سوزن سے نہ سلنے پائی

ہم کو تنہائی نے توڑا، کیا ریزہ ریزہ
زخمِ دل ہجر کی بارش تو نہ چھلنے پائی

تو فقط آئینہ دیوار پہ آویزاں ہے
تجھ میں رنگت مرے چہرے کی نہ کھلنے پائی

اپنی آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں یہ دنیا والے
کیا فضیلت مرے رخصار کے تِل نے پائی

زلزلے آئے گرے لاکھ شہابِ ثاقب
پر زمیں مرکز و محور سے نہ ہلنے پائی
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


darya ki musafat ne zameen ka nahi chora

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا
یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی 
اک سجدہ ء سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا

تصویر لگی رہ گئی دیوار ِ کھنڈر پر
جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا

سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے
پر ہم کو بت ِ دل نے یقیں کا نہیں چھوڑا

عُشّاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر 
وہ حسن ِ طلب تھا کہ نہیں کا نہیں چھوڑا

محکوم و تہی دست جو حق مانگنے نکلے 
پھر تخت بھی اس تخت نشیں کا نہیں چھوڑا

جب ہاتھوں سے رخصت ہوئیں محبوب دعائیں 
قطرے کو بھی محراب ِ جبیں کا نہیں چھوڑا

ڈاکٹر شاہدہ ؔدلاور شاہ



maan hai to muhabbat ki alamat hai mera ghar

ماں ہے تو محبت کی علامت ہے مرا گھر
جوں صحن میں پیپل ہے پرندوں کا ٹھکانہ
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


batlao koi ism muje radd e balaa ka

بتلاؤ کوئی اِسم مجھے ردِ بلا کا
میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ