Wednesday 23 March 2016

khwabon sa koi khwab bananay main lagi hon

خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں
اِک دشت میں ہوں پیاس بُجھانے میں لگی ہوں

بتلاؤ کوئی اسم مجھے رَدِبلا کا
میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں

وہ صحن میں افلاک لئے کب سے کھڑا ہے
میں چھت پہ ہوں بادل کو اُڑانے میں لگی ہوں

اِک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے
اِک عمر سے وہ نام مٹانے میں لگی ہوں

رُکنے نا کبھی پائے سفر روشنیوں کا
دریا میں چراغوں کو بہانے میں لگی ہوں

جب سے تیرے آنے کا سُنا ہے میرے گھر میں
چیزوں کو میں رکھنے میں،اُٹھانے میں لگی ہوں

جلتا بھی ہے بُجھتا بھی ہے ،اُڑتا بھی ہے جُگنو
سورج کو یہ احساس دلانے میں لگی ہوں

بُجھنے کو ہے اب خالی دیا عمرِ رواں کا
میں ہوں کہ ہواؤں کو منانے میں لگی ہوں

ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


No comments:

Post a Comment