دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا
یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا
صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی
اک سجدہ ء سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا
تصویر لگی رہ گئی دیوار ِ کھنڈر پر
جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا
سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے
پر ہم کو بت ِ دل نے یقیں کا نہیں چھوڑا
عُشّاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر
وہ حسن ِ طلب تھا کہ نہیں کا نہیں چھوڑا
محکوم و تہی دست جو حق مانگنے نکلے
پھر تخت بھی اس تخت نشیں کا نہیں چھوڑا
جب ہاتھوں سے رخصت ہوئیں محبوب دعائیں
قطرے کو بھی محراب ِ جبیں کا نہیں چھوڑا
ڈاکٹر شاہدہ ؔدلاور شاہ
No comments:
Post a Comment