Wednesday 23 March 2016

darya ki musafat ne zameen ka nahi chora

دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا
یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی 
اک سجدہ ء سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا

تصویر لگی رہ گئی دیوار ِ کھنڈر پر
جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا

سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے
پر ہم کو بت ِ دل نے یقیں کا نہیں چھوڑا

عُشّاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر 
وہ حسن ِ طلب تھا کہ نہیں کا نہیں چھوڑا

محکوم و تہی دست جو حق مانگنے نکلے 
پھر تخت بھی اس تخت نشیں کا نہیں چھوڑا

جب ہاتھوں سے رخصت ہوئیں محبوب دعائیں 
قطرے کو بھی محراب ِ جبیں کا نہیں چھوڑا

ڈاکٹر شاہدہ ؔدلاور شاہ



No comments:

Post a Comment